کامیابی توکل سے مشروط ھے


     _کامیابی توکل سے مشروط ھے_ 

    حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : "جو شخص ہر روز صبح وشام سات مرتبہ " حسبي الله لا إله إلا هو ،عليه توكلت وهو رب العرش العظيم" کے کلمات پڑھتا ہے، اللہ عز وجل اس کے( دنیا وآخرت) کے ارادوں میں کافی ہوجاتا ہے

    قرآن کریم کی یہ آیت اللہ رب العزت کی ذات پر توکل کا عظیم درس ہے ،سو جو شخص روزانہ صبح و شام سات مرتبہ یہ آیت پڑھتا ہے، گویا اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، اور بھروسے کی یاددہانی کرتا ہے، گویا ہر مرتبہ وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے، جو قرآن کریم کی سرخیوں کا حصہ ہے۔ جو ہر بندے کا ذمہ ہے۔ جو اللہ کا بندے پر حق ہے۔ منجملہ۔۔۔۔۔۔۔جو اس قصے کا سب سے اہم باب ہے۔

    واقعی خداوند کی توجہ ضروری ہے، وہی مقصود فطرت ہے، اس لیے انسان اُس سے آس لگائے رہتا ہے، سچ بات بھی یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی توجہ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پر بھروسہ کرے

    اللہ تعالی پر بھروسہ اور توکل کرنے کا اسلامی اصول حقیقتاً مطمئن زندگی گزارنے کا راز ہے۔

    انسان بھروسہ بار-بار بلکہ بہت بار کرتا ہے، یہ اس کی ضرورت بھی بن ہے 

    انسان اپنے جیسے انسانوں پرتوکل کرتا ہے۔ یہ واقعہ ہے۔ اور مضحکہ خیز واقعہ ہے۔

    غور کیجیے۔۔۔۔۔۔۔

    جس پر اعتماد کیا جارہا ہے کیا وہ اعتماد کرنے والے سے زیادہ قوت رکھتا ہے ہرگز نہیں۔

    ضعف الطالب والمطلوب

    دونوں ہی بہت کمزور ہیں۔

    دنیا کا طاقتور ترین شخص اور اسی دنیا کا سب سے کمتر شخص جو ہر دنیوی اعتبار سے کم تر ہو۔ ان دونوں کی طاقت و قوت میں کسی باریک زرے کے برابر بھی فرق نہیں۔ 

    پھر بھلا اس زور آزمائی کا کیا فائدہ؟

    کیا وجہ ہے کہ خطے پر موجود یہ سوا آٹھ بلین افراد بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ 16% بھی بھروسہ کرتے ہیں جو عام انسانوں سے زیادہ دانا ہیں اور وہ 2فیصد بھی جو ذہانت کے اس بازار میں زریں الماس کا مقام رکھتے ہیں۔

    بلاشبہ اس کا محرک توکل کا وہ جذبہ ہے جو انسانی فطرت میں ودیعت کردیا گیا تھا 

    سو یہ تو طے ہے کہ بھروسہ کیا جائے گا

    مگر کس پر کیا جائے گا؟

    یقینا اس پر جو اس کے لائق ہے۔

    وہ کون ہے؟

    لیجیے۔ یہ عقدہ بھی حل ہوا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کے پہلے صفحے کا مطالعہ کیجیے۔

    اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ 

    بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

    ؕاِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ (آمین)

    (خداوند۔۔۔۔۔۔۔ہم آپ کے پرستار ہیں، آپ کے در کے سوالی ہیں۔

    آپ کے سوا نہ کسی کی بڑائی نہ اختیار کے معترف ہوسکتے ہیں۔)

    معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا ابھی اک اور منزل ہے۔

    خدا کی ذات کی عظمت و رفعت کا یقین کرلیا گیا۔ خدا کے دست قدرت پر مکمل اعتبار کا اظہار ہوگیا۔ بلاشبہہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔مگر نہیں ہوا۔ ابھی کچھ اور باقی ہے۔

    (آگے کے لیے ہمیں سیدھی راہ دکھائیو.) اللہ اکبر !یہ بھی ایک توکل ہے بلکہ یہی تو اصلِ توکل ہے۔ 

    بھروسہ ہے رہے گا، اس کا وعدہ ہے۔ کیونکہ اس اعتبار کی ڈور اب بندے کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ سارا اختیار خداوند کے در کی نذر کردیا گیا۔

    ہم نے بھروسہ کرلیا۔ پھر کچھ ایسا ہو جس سے ہم کمزور پڑنے لگیں تو ہم یہ نہ کہیں گے کہ ہم نے بھروسہ کر کے غلط کیا۔ یہ تو ان کا طرز ہے جو کسی نالائق پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم نے تو آپ پربھروسہ کیا ہے۔ آپ اس کے واقعی لائق ہیں۔ 

    بھروسہ یہ ہے۔ اگر اب آزمائش ہو تو ہم اپنا رخ درست کریں گے۔ بلکہ یہ اختیار بھی آپ کا۔ آپ ہی ہمارے قبلے درست کیجیے۔ ہماری راہیں ہموار کیجیے سبحان اللہ ۔ یہ اعتبار ہے۔

    یہ حق پرستی کی شان ہے۔

    یہ اکھڑتے ہوئے قدموں کو سنبھالنے والی طاقت ہے۔

    یہ پراعتماد شخصیت کا راز ہے۔

    یہ کامیابی کا آغاز ہے۔

    ہاں یہی اختتام ہے۔

    یہی منزل کا سیدھا رستہ ہے۔

    کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کا نتیجہ اقبال کی خودی ہے۔

    توکل کا یہ تصور شخصیت ساز فلسفہ ہے۔ یہ کمال درجہ ہے۔

    جس تک رسائی کے کچھ اصول ہیں۔ نمبر ایک مثبت رویہ

    ۔نمبر دو۔ ہر صلاحیت کا اعتراف

    نمبر تین۔ مضبوط ارد اہ

    نمبر چار۔ کشادہ ذھن۔ 


    اگر آپ واقعی توکل کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں تو آپ کی ذات ذیل میں مذکور صفات سے مزین ہونے لگے گی۔

    ١۔ مقررہ اھداف

    ٢۔ باقعدگی

    ٣۔ یقین

    ٤۔ خیر کا داعیہ

    ٥۔ حقیقت شناسی

    سو۔۔۔مطالبات پورے کیجیے اور مطلوب بن جائیے۔اور یادرکھیے۔۔۔!

    حیات و موت نہیں التفات کے لائق

    فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

    از.... سميه وسيم مؤمناتى

    Related Topics:

    Post a Comment