ماہ محرم اور شیعيت
✨ماہ محرم اور شیعیت✨
از....سمية وسیم مؤمناتى
الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ قال اللہ تعالیٰ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم
إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراََ فى كتاب الله ........منها أربعة حرم .(سورة التوبة)
فضیلت
حدیث شریف کی روشنی میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے (شہر اللہ) محرم کے ہیں !حوالہ ( صحیح مسلم )
چونکہ اسلامی سال ۱۲ مہینوں پر مشتمل ہے، آیت مذکورہ بالا کے مطابق ان میں سے چار مہینہ حرمت والے ہیں
پہلا مہینہ محرم الحرام ہے جسے شریعت اسلامی میں خاص تقدس و حرمت حاصل ہے،محرم کے لغوی معنی قابل تعظیم حرمت و عظمت ہیں
!گویا شریعت اور لغة کے حساب سے یہ مہینہ قابل تعظیم ہے
لہذا یہ "شہر الله" ہے، سو جب کسی چیز کی نسبت کسی خاص شی کی جانب کی جاتی ہے، تو اس کو ایک خاص مقام حاصل ہو جاتا ہے، اور کسی مہینے،دن یا زمانے میں حرمت و عظمت کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کی تجلیات و انوارات کا اُس میں ظاہر ہونا ہے،گو کسی عظیم الشان واقعے کا رونما ہونا بھی ثانوی درجے میں اس کی حرمت و فضیلت کا سبب بن جاتا ہے
لہٰذا جب ہم آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہیکہ یہ مہینہ اپنی ابتداء آفرینش سے ہی عظمت والا مہینہ ہے
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل بھی لوگ اس مہینے کی تعظیم کرتے تھے،مشرکين عرب جو اپنی خانہ جنگی میں ضرب المثل تھے، جن کے ہاں ایک معمولی واقعہ بھی سالوں کی جنگ کا پیش خیمہ بن جاتا تھا، وہ بھی اِن حرمت والے مہینوں میں اپنی خانہ جنگی روک لیتے تھے ،حتی کہ خود شریعتِ محمدیہ کے اندر بھی ابتداء اِن مہینوں کے اندر قتل و قتال ممنوع تھا
چُنانچہ سورۃ البقرہ
..يسلونك عن الشهر الحرام قتال فيه قل قتال فيه كبير
میں ممانعت قتال مذکور ہے ،اگرچہ جنگ بندی کا یہ خاص حکم اب باقی نہیں رہا لیکِن ان مہینوں کی عظمت و حرمت من وعن برقرار ہے کیونکہ یہ حرمت، منزلت یا عظمت ابتداء سے آخر الزمان تک منصوص رہی ہے
!!!صد افسوس
اس دور میں اُمت کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے غافل ہے، اُن کے نزدیک اس مہینہ کی حرمت و فضیلت فقط ایک عظیم الشان واقعے کی وجہ سے ہے،اور وہ واقعہ ہے شہادت حُسین
یہ اور بات ہے کہ ان میں سے اکثر حضرات اس واقعے کے اکثر حقائق سے بھی آشنا نہیں۔
یقیناً اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شہادت حُسین اُمت محمدیہ کے عظیم ترین حوادث میں سے ہے، بلکہ یہ وہ خنجر ہے جس کا زخم امت کی پشت سے اب بھی رس رہا ہے
تاریخ انسانی نے یقینا ایسا دلدوز واقعہ کم-کم سنا اور دیکھا
یہ موضوع حساس ترین موضوع ہے کیونکہ ادنی سے ادنی درجے کا صاحب ایمان اہل بیت و اصحاب نبی سے عقیدت و محبت کا جذبہ کمال کا رکھتا ہے ، ظاہر ہے کہ جس کو بھی نبیﷺ آپ کے اہل بیت اور آپ کے اصحاب کرام سے محبت ہوگی وہ اس باب میں اپنے جذبات نظرانداز نہیں کرسکتا!
موضوع پر واپس آتے ہوئے زمانہ شاہد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اسلام میں سب سے عظیم شہادت حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہوئی،
جنہیں دنیا سید الشہداء کے لقب سے جانتی ہے
یہ بھی ناقابل فراموش حقیقت تھی سیدنا وسید شباب اھل الجنۃ ابن رسول اللہ حضرت حسین کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا واقعہ ان چند حوادث میں سے ایک تھا جو حقائق پر مبنی کہانیوں کے اپنے-اپنے کرداروں کو دیگر شہداء سے ممتاز قرار دینے کو کافی ہے۔
اس فہرست میں مذکورہ بالا دونوں شہداء اور سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ زید بن دثنہ اور خبیب بن عدی جیسے سینکڑوں صحابہ کے مبارک نام ہیں۔
یہ طے ہے کہ شہادت حُسین کو حُرمت محرم کا اصل سبب قرار دینا سیاسی مصلحت ہے، یہ عمل ایک خاص فرقے کے جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔
اور یہ فرقہ ایک سیاسی فرقہ ہے نہ کہ اسلامی (اس فرقہ کا وجود سیاسی مقاصد کے لیے ہوا ہے نہ کہ دینی مقاصد) گرچہ ان کے ناخداؤں کو مذہبیت کا لبادہ ہاتھ آگیا یوں اس جماعت کی پہچان اسلامی فرقہ کے طور پر کی جانے لگی ،سو یہ ساری کارستانیاں اس فرقہ کی ہیں جن کو عرف عام میں "شيعہ" کہا جاتا ہے،اس فرقہ کے عقائد سے عموماً لوگ ناواقف ہیں
چنانچہ یہ لوگ شہادت حُسین کی آڑ میں جو کچھ بھی اس ماہ میں کرتے ہیں حقیقت یہ ہیکہ اسلامی شریعت اور تاریخ سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ لیکِن عدم واقفیت اور جہالت کی وجہ سے اھل سنت والجماعت کی خاصی تعداد اسے حقیقت تصور کرتی ہے
اور ماہ محرم الحرام میں غیر شرعی کاموں کی مرتکب ہوتی ہے
سو ایسے لوگوں کے لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے
قال رسول اللہ ﷺمن تشبہ بقوم فہو منہم
جو شخص کسی قوم کی مشابہت اخیتار کریگا وہ اسی میں سے ہے
البتہ خوشی کے موقع پر خوشی اور غم کے موقع پر غمگین ہونا تو انسانی فطرت ہے، لہذا فطرت انسانی کو کون بدل سکتا ہے، الا ماشاء اللہ
لیکن اگر اس طرح کے واقعات کو لیکر غم منانے لگیں ماتم کرنے لگیں تو پھر تاریخ اسلامی کا ایک ایک دن ایسے واقعات سے لبریز ہے، بلکہ امت کے لیے جو سب سے بڑا غم ہو سکتا ہے وہ حضور کا دنیا سے کوچ کر جانا ہے
!!!ذرا غور کیجئے
جب اس دن کو بھی شریعت نے"یوم الحزن" منانے کی اجازت نہیں دی تو پھر کسی اور دن کو یا شہادت حُسین کو یوم الحزن منانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے ؟؟؟
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اہل بیت کے افراد کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی۔ ان شہادتوں کے بعد اس گھرانے کے جو افراد باقی رہے انہوں نے بھی کبھی کوئی ایسی محفل قائم نہ کی جس میں باقاعدہ ان کے گھر والوں پر افسوس کیا جائے
افسوس یہ ماتم یہ چیخ و پکار اور یہ رونے دھونے کی رسمیں
یہ ان بزدلوں کا خاصہ ہے جن کی رگوں میں یہود کا خون اور ذہنوں میں فارس کی غلاظت ہے۔
جس کو نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نہ ہی تابعی نے ، اور نہ ہی تبع تابعی نے منایا ہو لہٰذا محرم کی دسویں تاریخ کو ماتم کرنا،نیزہ بازی کرنا، تعزیہ کے جلوس نکالنا یا شرکت کرنا بدعت ہے۔
حدیث شریف کے الفاظ ہیں
مَن امرنا فی دیننا ما لیس منه فهو رد ( رواہ البخاری )
جبکہ اصحاب کرام پر تبرا کرنا تبرا سننا اور تبرا کرنے والوں کا کسی بھی طور تعاون کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتب کردہ قوانین سے سرعام بغاوت ہے
لہٰذا اس ماہ میں روزوں کا اہتمام کیجیے۔
کیونکہ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق یہ روزہ پچھلے ایک سال کے تمام صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہے عبادات کا اہتمام کیجئے
موقع کی مناسبت سے شہداء کے اصل واقعات کا مطالعہ کیجیے
ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کیجیے اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کیجئے
بلاشبہ خدا کی مدد کے بغیر راہیاب ہونا بھی ممکن نہیں
!!خدا اس راہ میں ہم سب کا حامی و ناصر ھو
🤲🤲🤲آمین ثم آمین
Related Topics:
2 comments
ما شاء الله
ReplyDeleteMa sha Allah.
ReplyDeleteGreat Dear.....
May Allah bring you to more higher levels in both the worlds...